حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو دیکھ کر خوش ہوا تو میں نے بوسہ لے لیا اور میں روزہ میں تھا پس میں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ ! میں آج ایک بہت بڑا کام (قصور) کر بیٹھا ہو وہ یہ کہ میں نے روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا مجھے بتائیں کہ اگر آپ روزہ کی حالت میں کلی کریں تو پھر کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟( یعنی جس طرح کلی کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اسی طرح بوسہ لینے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔ )
(سنن ابی داوُد، جلد دوم کتاب الحیاء) (2385)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی دی ہوئی رخصت (مسافر مریض وغیرہ) کے علاوہ رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دیا تو اگر وہ زمانہ بھر روزے رکھ لے تب بھی اس ایک روزہ کی کمی پوری نہ ہوسکتی ہے (اس کی قضا نہیں)۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب الحیاء) (2396)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھاپی لیا ہے تو آپؐ نے فرمایا ، کوئی حرج نہیں اللہ تعالیٰ نے تمہیں کھلایا پلایا ہے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب الحیاء) (2398)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورا رمضان روزے رکھے اور قیام کیا ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ آپؐ نے یہ اس لئے فرمایا کہ آپؐ اپنے آپ کا تذکرہ بیان کرنے کو ناپسند کرتے تھے یاس اس لئے فرمایا کہ آدمی رمضان میں سوتا بھی ہے اور آرام بھی کرتا ہے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم کتاب الحیاء) (2415)حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی : اے اللہ کے رسولؐ آپ روزہ کیسے رکھتے ہیں؟ پس رسول اللہ ﷺ اس کی اس بات سے ناراض ہوگئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حال دیکھی تو وہ کہنے لگے ترجمہ: ہم اللہ کے ربّ ہونے، اسلام کے دین ہونے ، اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہیں ، ہم اللہ تعالیٰ سے ، اللہ اور اس کے رسول کے ناراض ہونے کی پناہ چاہتے ہیںحضرت عمر رضی اللہ عنہ ، نبی ﷺ کے غصہ ٹھنڈا ہونے تک یہ کلمات دہراتے رہے ۔ پس انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اس شخص کی کیا صورت ہے جو زمانہ بھر کے (ہمیشہ) روزے رکھتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔ پھر انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ اس شخص کی کیا صورت ہے جو دو دن روزے رکھتا ہے ایک دن افطار کرتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا! کیا کوئی اس کی استطاعت رکھتاہے؟ انہوں نے پھر کہا اس شخص کی کیا صورت ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے ایک دن افطار کرتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ داؤد علیہ السلام کا روز ہ ہے۔ انہوں نے کہا اس شخص کی کیا کیفیت ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے دو دن افطار کرتا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا مجھے یہ پسند ہے کہ مجھ میں اتنی قوت آجائے پھر آپؐ نے فرمایا : ہر ماہ تین روزے، رمضان سے دوسرے رمضان تک روزے رکھنا ایسے ہے ہمیشہ روزے رکھنا۔ عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا میں اللہ تعالیٰ سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔( دو سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے)۔ یوم عاشورہ کے روزے کے متعلق مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ وہ ایک سال پہلے کے گناہوں کو معاف کردے گا۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب الحیاء) (2425)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو روزہ رکھنے کے لئے تمام مہینوں میں سے ماہ شعبان بہت محبوب تھا پھر آپؐ (اس ماہ روزے رکھتے یہاں تک کہ ) اسے رمضان سے ملا دیتے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب الحیاء) (2431)مسلم القرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ہمیشہ روزہ رکھنے کے متعلق دریافت کیا ۔ آپؐ نے فرمایا : تم پر تمہارے اہل و عیال کا بھی حق ہے، رمضان سے متصل دنوں (شوال کے چھ روزے) اور ہر بدھ اور جمعرات کے روزے رکھو اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے زمانے بھر کے روزے رکھے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم کتاب الحیاء) (2432)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عاشورہ کا دن وہ دن ہے جس روز زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور اس وقت رسول اللہ ﷺ بھی روزہ رکھتے تھے۔ پس جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو اس روز خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ پس جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو وہ تو فرض تھے اور عاشورہ کا روزہ متروک ہوگیا تو جس کا دل چاہے اس کا روزہ رکھے اور جس کا دل چاہے نہ رکھے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم کتاب الحیاء) (2442)نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا جو شخص فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم، کتاب الحیاء) (2454)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں آئیں تو عرض کی کہ اس کی والدہ کے ذمہ ایک ماہ کے روزے تھے کیا اس کی طرف سے میں رکھوں؟ تو آپؐ نے فرمایا اگر تیری والدہ کے ذمہ قرض ہوتا تو کیا تم ادا کرتیں؟ اس نے کا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا تو پھر اللہ کے قرض کی ادائیگی زیادہ ضروری ہے۔
(سنن ابی داوُد، جلد دوم ، کتاب قسم، اور نذر کے احکام) (3310)« Previous 123456 Next » 51 |