حضرت عرس بن عمیرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی غلطیوں پر سب کو (جو اس غلطی میں مبتلا نہیں ہیں) عذاب نہیں دیتے البتہ سب کو اس صورت میں عذاب دیتے ہیں جب کہ فرمانبردار باوجود قدرت کے نافرمانی کرنے والوں کو نہ روکیں۔
(طبرانی، مجمع الزوائد)حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا: یارسول اللہ! کیا ہم لوگ ایسی حالت میں بھی ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں جب برائی عام ہوجائے۔
(بخاری)حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میں گھوڑی کی سواری اچھی طرح نہیں کرپاتا تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعادی اے اللہ! اسے اچھا گھڑ سوار بنادیجئے اور خود سیدھے راستہ پر چلتے ہوئے دوسروں کو بھی سیدھا راستہ بتانے والا بنادیجئے۔
(بخاری)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے آپ کو گھٹیا نہ سمجھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اپنے آپ کو گھٹیا سمجھنے کا کیا مطلب ہے؟ ارشاد فرمایا: کوئی ایسی بات دیکھے جس کی اصلاح کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ہو لیکن یہ اس معاملہ میں کچھ نہ بولے تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن فرمائیں گے کہ تمہیں کس چیز نے فلاں فلاں معاملہ میں بات کرنے سے روکا تھا؟ وہ عرض کرے گا: لوگوں کے ڈر کی وجہ سے نہیں بولا تھا کہ وہ مجھے تکلیف پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار تھا کہ تم مجھ ہی سے ڈرتے۔
(ابن ماجہ)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل میں سب سے پہلی کمی یہ پیدا ہوئی کہ جب ایک شخص کسی دوسرے سے ملتا اور اس سے کہتا فلانے! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جو کام تم کررہے ہو اسے چھوڑ دو اس لئے کہ وہ کام تمہارے لئے جائز نہیں۔ پھر دوسرے دن اس سے ملتا تو اس کے نہ ماننے پر بھی وہ اپنے تعلقات کی وجہ سے اس کے ساتھ کھانے پینے میں اور اٹھنے بیٹھنے میں ویسا ہی معاملہ کرتا جیسا کہ اس سے پہلے تھا۔ جب عام طور پر ایسا ہونے لگا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمانبرداروں کے دل نافرمانوں کی طرح سخت کردیئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دلعن الذین کفروا من بنی اسرآئیل علی لسان داو‘ وعیسی بن مریم سے فسقون تک پڑھا (پہلی دو آیات کا ترجمہ یہ ہے) ’’بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت کی گئی، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے نکل جاتے تھے۔ جس برائی میں وہ مبتلا تھے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ واقعی ان کا یہ کام بے شک برا تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاکید سے یہ حکم فرمایا کہ تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، ظالم کو ظلم سے روکتے رہو اور اس کو حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو اور اسے حق پر روکے رکھو۔
(ابوداوُد)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو تم یہ آیت پیش کرتے ہو  یآ یھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم  ’’اے ایمان والو اپنی فکر کرو، جب تم سیدھی راہ پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں‘‘ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسے ظلم سے نہ روکیں، تو وہ وقت دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عمومی عذاب میں مبتلا فرمادیں۔
(ترمذی)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم راستوں میں نہ بیٹھا کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارے لئے ان راستوں میں بیٹھنا ضروری ہے ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستے کے حقوق ادا کیا کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! راستہ کے حقوق کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نگاہوں کو نیچے رکھنا، تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹادینا (یا خود تکلیف پہنچانے سے باز رہنا) سلام کا جواب دینا، نیکی کی نصیحت کرنا اور برائی سے روکنا۔
(بخاری)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہماری اتباع کرنے والوں میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، نیکی کا حکم نہ کرے اور برائی سے منع نہ کرے۔
(ترمذی)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی کا بیوی، مال، اولاد اور پڑوسی کے متعلق احکامات کے پورا کرنے کے سلسلہ میں جو کوتاہیاں اور گناہ ہوجاتے ہیں ان کا نماز، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کفارہ بن جاتے ہیں۔
(بخاری)حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو شہر والوں سمیت الٹ دو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر میں آپ کا فلاں بندہ بھی ہے جس نے ایک لمحہ بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ تم اس شہر کو اس شخص سمیت سارے شہر والوں پر الٹ دو کیونکہ شہر والوں کو میری نافرمانی کرتا ہوا دیکھ کر اس شخص کے چہرے کا رنگ ایک گھڑی کے لئے بھی نہیں بدلا۔
(مشکوٰۃ المصابیح)