حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل میں سب سے پہلی کمی یہ پیدا ہوئی کہ جب ایک شخص کسی دوسرے سے ملتا اور اس سے کہتا فلانے! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، جو کام تم کررہے ہو اسے چھوڑ دو اس لئے کہ وہ کام تمہارے لئے جائز نہیں۔ پھر دوسرے دن اس سے ملتا تو اس کے نہ ماننے پر بھی وہ اپنے تعلقات کی وجہ سے اس کے ساتھ کھانے پینے میں اور اٹھنے بیٹھنے میں ویسا ہی معاملہ کرتا جیسا کہ اس سے پہلے تھا۔ جب عام طور پر ایسا ہونے لگا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمانبرداروں کے دل نافرمانوں کی طرح سخت کردیئے۔ رسول اللہ ﷺ نے دلعن الذین کفروا من بنی اسرآئیل علی لسان داو‘ وعیسی بن مریم سے فسقون تک پڑھا (پہلی دو آیات کا ترجمہ یہ ہے) ’’بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی لعنت کی گئی، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے نکل جاتے تھے۔ جس برائی میں وہ مبتلا تھے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ واقعی ان کا یہ کام بے شک برا تھا)۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاکید سے یہ حکم فرمایا کہ تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکو، ظالم کو ظلم سے روکتے رہو اور اس کو حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو اور اسے حق پر روکے رکھو۔
(ابوداوُد)